مکرو فریب کے جالnحضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت حاتم اصم رحمتہ اللہ علیہ اپنے مکان کے جس حصہ میں بیٹھا کرتے تھے وہاں کی چھت پر ایک مکڑی نے جالا بن رکھا تھا ۔ حضرت حاتم اصم رحمتہ اللہ علیہ ایک دن اپنے مریدوں اور عقیدت مندوں کے ہجوم میں بیٹھے ان سے باتیں کررہے تھے کہ ایک مکھی اس مکڑی کے جالے میں پھنس گئی اور بھنبنانے لگی۔ حضرت حاتم اصم رحمتہ اللہ علیہ نے جب اس مکھی کی بھنبھناہٹ سنی تو اس کی جانب دیکھ کر فرمایا کہ اے لالچ کرنے والی ! اب یونہی پھنسی رہ۔nاے بے وقوف! ہرجگہ شہد اور میٹھا نہیں ہوتا۔ دنیا تو وہ مقام ہے جس کی اکثر جگہیں مکروفریب کے جال ہیں۔ حضرت حاتم اصم رحمتہ اللہ علیہ کی بات سن کر ایک مرید نے حیرانگی سے کہا کہ حضرت! آپ نے اتنی دور سے اس مکھی کی بھنبھناہٹ سن لی؟ مرید کی حیرانگی کی ایک وجہ یہ تھی کہ لوگ آپ کو بہرا سمجھتے تھے کیونکہ اصم عربی زبان میں بہرے کو کہتے ہیں۔n(خبر جاری ہے)nnحضرت حاتم اصم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تم مجھے بہرا ہی سمجھو کیونکہ میں نے باطل اور برائی کی باتوں کو سننے سے اپنے کانوں کو بہرا کررکھا ہے۔nمیں دیکھتا ہوں کہ لوگ میری خوبیوں کو بیان کرتے ہیں اور میرے عیبوں پر پردہ ڈالتے ہیں ۔ چنانچہ میں بہرا ہوگیا ہوں اور وہ میرے بارے میں وہی کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں ہوتا ہے۔nمقصود بیان: حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں بیان کرتے ہیں کہ غرور وتکبر سے بچنا چاہئے اور دنیا کے مکرو فریب سے بچنا چاہیے۔ اگر کوئی تمہاری تعریف کرتا ہے تو تم اس تعریف کی جانب توجہ نہ دو بلکہ خود کر بہرا بنالو۔ اگر لوگ تم پر تنقید کرتے ہیں تو تم ان کی اس تنقید کو مثبت جانو اور خود میں موجود عیوب کو درست کرنے کی کوشش کرو۔ خودنمائی اور تکبر سے بچو کہ اللہ عزوجل کو مغرور پسند نہیں۔ دین اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو اور حضور نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں موجود سنہری اصولوں کو اپنانے کی کوشش کرو تاکہ تم اس دنیا کے مکرسے محفوظ رہ سکو۔
About :
Contact:
Other Information
Categories:
Personal BlogFeatured Articles:
حکایات رومی رحمتہ اللہ علیہ: nسفر کے دوران ایک یہودی‘ ایک نصرانی اور ایک مسلمان ہم سفر ہوئے۔ راستہ میں ان کو حلوہ ملاتو یہودی اور نصرانی نے چالاکی کے ساتھ مسلمان کو اس حلوے سے محروم رکھا۔اللہ عزوجل کو ان کی یہ چالاکی پسند نہ آئی اور اس نے ایسا بندوبست کیاکہ وہ حلوہ مسلمان کو ملا۔ اس سیدھے سادے مسلمان پر اللہ عزوجل کی رحمت ہوئی۔nاس قصہ کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ چالاکی سے بچو کہ کہیں آزمائش میں مبتلا نہ ہو۔nان تینوں کا ہم سفر بننا ایسا تھا جیسے پنجرے میں بے جوڑ پرندے رکھے ہوئے ہوں یاقید خانے میں مختلف اقسام کے لوگ یکجاہوتے ہیں۔ یہی مثال اس دنیا کے عام انسانوں کی ہے۔راستہ کھلنے پر پڑاؤ کے مسافر اپنی اپنی راہ اختیار کر لیتے ہیں یاپنجرہ کھلتے ہی پرندے اپنی جنسوں کی جانب محوپرواز ہوجاتے ہیں۔nnایسے پرندے وطن کے شوق میں پر پھیلائے ہوئے ہیں لیکن اڑنے کاراستہ نہیں ہے۔ انسان جو کہ راہ کے طلبگار ہیں آنسوؤں اور آہوؤں کے پرکھولے راہ کی تلاش میں گم ہیں اور اللہ عزوجل کی یاد میں پرکھولتے ہیں۔nجس طرف سے آنسو اور سوزش آئی جب موقع ملا اس طرف چلنا شروع کردیا۔ nکچھ اپنے جسم کے اجزاء پر غور کرکہ کہاں کہاں سے آکر تمہارے جسم کاجزو بنتے ہیں۔ یہ اجزاء اپنے مرکز کی جانب منتقل ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ ایسااسی وقت ہوتا ہے جب تک حضرت حق کے سامنے پیش نہیں ہوتے۔ جب جلال خداوندی کی گرمی پڑے تو سب چیزیں حاضر ہوجائیں گی۔nجب ان تینوں مسافرکا پڑاؤ آیاتو ایک مہمان نوازان کے لئے حلوہ لے آیا۔nوہ اس فرمان خداوندی سے واقف تھاجو قرآن مجید میں ہے کہ جب حضورنبی کریم ﷺ سے میرے بندے میرے تعلق پوچھیں گے تو ان سے کہہ دینا کہ میں ان کے نزدیک ہوں۔ وہ میزبان مسلمان تھے اور محض اللہ عزوجل کی خوشنودی کے لئے مسافروں کے لئے حلوہ لے کر آئے تھے۔ یہودی اور نصرانی کاپیٹ بھرا ہواتھا اس لئے کہا کہ اس کو رکھ دیں اور صبح کھائیں گے۔ مسلمان چونکہ دن کے وقت روزہ سے تھا اس لئے اسے بھوک لگی تھی اس نے کہا کہ میں بھوکا ہوں اسے تقسیم کرلیں کیونکہ میں اسے سارا کھانا چاہتا ہوں۔nnنفسانی غرض کے بغیر کی گئی تقسیم اچھی ہوتی ہے۔ انسان بھی اللہ عزوجل کی ملک ہے اگر وہ اپنے آپ کو اور اپنے افعال کو تقسیم کرلے تو کچھ اللہ عزوجل کے لئے اور کچھ لوگوں کے لئے تو گویاوہ مشرک ہے۔ ان دونوں نے اس کی بات نہ مانی۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس مسلمان کو رات کو بھی بھوکارکھا جائے۔ مجبوراََ اس مسلمان کو ان کی بات ماننا پڑی۔ صبح اٹھ کر سب نے اپنے اپنے مذہب کے مطابق اللہ عزوجل کو یاد کیا اور ایک دوسرے کی جانب رخ کرکے بیٹھ گئے اور کہا کہ ہر شخص اپنا اپنا خواب بیان کرے جس کا خواب اچھا ہوگا وہ اس حلوے کوکھائے گا۔nجس کا خواب بہتر ہوا اس کی عقل بھی بہتر ہوئی یقینا اس کی روح پر نور ہوگی اور ایسے بزرگ کی خدمت میں اپنا حصہ اسے کھلانا باعث برکت ہے۔nیہودی نے سب سے پہلے اپنا خواب سنایا اور کہاکہ میں جارہاتھا کہ میری نظر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور کوہ طور پرپڑی۔ ایک نورکی تجلی ظاہر ہوئی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور کوہِ طور اس میں چھپ گئے۔ اس نور کی تجلی سے کوہ طو ر کے تین ٹکڑے ہوئے۔ ایک ٹکڑا سمندر میں گراتو اس کازہریلا پانی شیریں ہوگیا۔nدوسرا ٹکڑا زمین میں دھنس گیا تو اس میں سے ایک چشمہ پھوٹ پڑا جو بیماروں کے لئے باعث شفاعت ہوا۔ تیسرا ٹکڑا خانہ کعبہ کے پاس پہنچ گیا اور عرفات کا پہاڑ وجود میں آگیا۔ اب کوہ طور کا دوسرا تغیر شروع ہواکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قدموں میں آسمان سے گرنے والی یخ کی طرح نرم ہوگیا۔ اس کے بعد میرے حواس درست ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور کوہِ طور کو اپنی اصل حالت میں دیکھا۔ یہ عجب چیز تھی کہ کوہِ طور کادامن عجیب چیزسے پرہے۔nہر شخص کے ہاتھ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا عصا ہے اور اس کے بدن پر ان جیسا خرقہ ہے۔ وہ سب خراماں خراماں کوہِ طور کی جانب جارہے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر دعا کی کہ اے اللہ! مجھے مردوں کو زندہ کرنا دکھا دے اب میں سمجھا کہ یہ انبیا علیہ السلام کا مجمع ہے اور انبیاء علیہ السلام اپنی دعوت میں متحد ہیں۔ پھر مجھے فرشتوں کی ایک جماعت نظر اائی جیسے وہ برف بنے ہوئے ہیں۔ فرشتوں کی ایک دوسری جماعت بھی میں نے دیکھی جو آتشیں معلوم ہوتی تھی۔nnاس خواب پر حیران نہ ہو کہ اس یہودی کاانجام بخیر ہوااور اس نے مرتے وقت شرک سے توبہ کرلی۔ کسی کافر کے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہوسکتا ہے کہ اسے آخروقت میں توبہ نصیب ہوجائے۔ nیہودی کے بعد عیسائی نے خواب سنایااور کہا کہ سب جانتے ہیں کہ آسمان کی چیزیں زمین سے افضل واعلیٰ ہیں۔ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ چوتھے آسمان پرتھا اس لئے اس حلوے کو کھانے کا میں زیادہ مستحق ہوں۔nnمقصود بیان: nمولانا محمد جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ چالاکی سے بچو کہ کہیں تم آزمائش میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔ اللہ عزوجل کے طلبگار بنواور اپنی زندگیوں کا مقصد اس مقصود حقیقی کوبنالو۔ اللہ عزوجل نے حضور نبی کریم ﷺ سے فرمایا کہ جب لوگ آپ ﷺ سے میرے تعلق دریافت کریں تو انہیں کہہ دیں کہ میں تمہاری شہ رگ سے بھی زیادہ تمہارے نزدیک ہوں۔ پس طلب سچی ہوتو یقینا مقصود مل جاتا ہے۔
ښه خبره سل کاله عمر لري!nnښه خبره د اورېدونکو په زړونو کې د ځای موندلو او خپلولو ځواک لري او په اورېدونکو مثبتې اغېزې ښندلای شي.nnپه زړونو باندې د پاچاهۍ کولو تر ټولو غوره لار ښې او غوره خبرې کول دي.nnښه خبره نه هېرېدونکې ده؛ هېڅوک دومره ناپوه نه دي، چې د ښې خبرې په ارزښت پوه نه شي.nnبده خبر هم له سلو کلونو ډېر عمر لري، بده خبر د کرکې پیلامه او زېږنده ده او له زړونو څخه د لیرې اوسېدو لامل ګرځي؛ ځکه بده خبره هم نه هېرېدونکې ده او هر څوک یې په مانا په ښه توګه پوهېږي.nnد ملګري له لاسه ورکول ډېر اسانه دي، اما غوره ملګرتیا ټینګول او له یو چا څخه ښه ملګری جوړول بیا کومه اسانه خبر نده؛ دا هر څه په ښه او بده خبر پورې ټړلي دي؛ یعنې په ښه خبر له هر چا ښه ملګری جوړولای شو او په بده خبر مو شته ملګري هم له لاسه وتلای شي.nnد ښې خبرې په غوره توب او ارزښت هغه وخت پوهېدای شئ کله، چې د کوم چا د بدې خبرې مزه وڅکئ!nnتل غوره خبرې وکړئ او له نورو هم اړونده تمه ولرئ!